Posts

Showing posts from October, 2023

طغیانیِ رودِ موسیٰ (۱۹۰۸)

  قیامتِ صغریٰ ۔ سید احمد حسین امجدؔ حیدرابادی طغیانیِ رودِ موسیٰ (۱۹۰۸) ۱ نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور مرے تن میں ہوا ہے تار اشکِ یاس رشتہِ چشمِ سوزن میں ہوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا خانہ ویرانی کفِ سیلاب باقی ہے بہ رنگِ پمبہ روزن میں سرکنم نالہ اگر تابِ شنیدن داری سینہ بہ شگافم اگر طاقتِ دیدن داری ۲ میں موردِ حرمان و گرفتارِ بلا ہوں ماں باپ سے بچھڑا ہوا بچوں سے جدا ہوں گہ محوِ فغاں ہوں کبھی مصروفِ بُکا ہوں معلوم نہیں خود مجھے میں کون ہوں کیا ہوں بے ہوش کبھی ہوں کبھی ہو جاتا ہے سکتہ وہ عالمِ حیرت ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا ۳ افسانہ کہوں کیا دِلِ بے تاب و تواں کا کیا ذکر کروں درد و غمِ رنجِ نہاں کا ہوتا نہیں کمبخت اثر آہ و فغاں کا ہے کون کہ ہمدرد بنے سوختہ جاں کا کس واقفِ ما نیست کہ از دیدہ چہا رفت سیلابِ سرشک آمد و طوفانِ بلا رفت ۴ جو ہم نے سہا ہے نہ سہا ہوگا کسی نے دیکھا ہے جو ہم نے وہ دشمن بھی نہ دیکھے کچھ ایسے دئے چرخِ ستمگار نے چرکے یک لخت ہوئے قلب و جگر کے کئی ٹکڑے لختے برد از دل گذرد ہر کہ زپیشم من قاش فروش دِلِ صد پارۂ خویشم ۵ رونے کے سوا کام نہیں ہے کوئی دم بھر منظورِ نظر ہو نہیں