tuGhyaani 1908-qayaamat-e soGhra-amjad hyderabadi - Urdu

 tuGhyaani 1908-qayaamat-e soGhra-amjad hyderabadi


قیامتِ صغریٰ ۔ سید احمد حسین امجدؔ حیدرابادی

طغیانیِ رودِ موسیٰ (۱۹۰۸)

۱_(1)

نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور مرے تن میں

ہوا ہے تار اشکِ یاس رشتہِ چشمِ سوزن میں

ہوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا خانہ ویرانی

کفِ سیلاب باقی ہے بہ رنگِ پمبہ روزن میں

سرکنم نالہ اگر تابِ شنیدن داری

سینہ بہ شگافم اگر طاقتِ دیدن داری


۲ (2)

میں موردِ حرمان و گرفتارِ بلا ہوں

ماں باپ سے بچھڑا ہوا بچوں سے جدا ہوں

گہ محوِ فغاں ہوں کبھی مصروفِ بُکا ہوں

معلوم نہیں خود مجھے میں کون ہوں کیا ہوں

بے ہوش کبھی ہوں کبھی ہو جاتا ہے سکتہ

وہ عالمِ حیرت ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا


۳ (3) 

افسانہ کہوں کیا دِلِ بے تاب و تواں کا

کیا ذکر کروں درد و غمِ رنجِ نہاں کا

ہوتا نہیں کمبخت اثر آہ و فغاں کا

ہے کون کہ ہمدرد بنے سوختہ جاں کا

کس واقفِ ما نیست کہ از دیدہ چہا رفت

سیلابِ سرشک آمد و طوفانِ بلا رفت


۴ (4)

جو ہم نے سہا ہے نہ سہا ہوگا کسی نے

دیکھا ہے جو ہم نے وہ دشمن بھی نہ دیکھے

کچھ ایسے دئے چرخِ ستمگار نے چرکے

یک لخت ہوئے قلب و جگر کے کئی ٹکڑے

لختے برد از دل گذرد ہر کہ زپیشم

من قاش فروش دِلِ صد پارۂ خویشم


۵ (5) 

رونے کے سوا کام نہیں ہے کوئی دم بھر

منظورِ نظر ہو نہیں سکتا کوئی منظر

تاریک ہے دنیا مری نظروں میں سراسر

سورج کو سمجھتا ہوں میں جگنو کے برابر

در زندگیم روز مرا نور نماندہ است

وز عمرِ مرا جز شبِ دیجور ناماندہ است


۶ (6) 

ناکامیوں نے دِل میں مچا رکّھا ہے اندھیر

چلتی ہے تمنّاؤں پہ مایوسی کی شمشیر

جینے سے خُدا کی قسم اب ہو گیا جی سیر

پھر آنے میں کس واسطے کرتی ہے اجل دیر

ہاں اے ملک الموت از این بند رہا کن

رحمی بہ منِ سوختۂ بے سر و پا کن


۸ (7) 

وہ رات کا سنّاٹا وہ گھنگور گھٹائیں

بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں

گرنا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں

وہ مانگنا ہر ایک کا رو رو کہ دعائیں

پانی کا وہ زور اور وہ دریا کی روانی

پتّھر کا کلیجہ ہو جسے دیکھ کے پانی



۸

وہ رات کا سنّاٹا وہ گھنگور گھٹائیں

بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں

گرنا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں

وہ مانگنا ہر ایک کا رو رو کہ دعائیں

پانی کا وہ زور اور وہ دریا کی روانی

پتّھر کا کلیجہ ہو جسے دیکھ کے پانی


۹ (9)

دم لینے کی طاقت تھی نہ سُستانے کی تاب آہ

تھی زندگیِ خورد و کلاں نقش بر آب آہ

کرتی تھے الگ سیلِ رواں خانہ خراب آہ

طوطے کی طرح آنکھیں بدلتے تھے حباب آہ

جان لینے کو ہر اِک متنفّس کے  بڑھی تھیں

بے وجہ نہیں تیوریاں موجوں پہ چڑھی تھیں


۱۰ (10) 

تاریکی میں دریا نے اِک اندھیر مچایا

سیلابِ فنا بن کے کیا سب کا سفایا

پاؤں سے گُذرتا ہوا پھر سینے تک آیا

آگے جو بڑھا موت نے بس حلق دبایا

شب بھر رہے سب پانی میں فوّارے کی مانند

ہوتے ہی سحر ڈوب گئے تارے کی مانند


۱۱(11)

مادر کہیں اور میں کہیں با دیدۂ پُر نم

بی بی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم

عالم میں نظر آتا تھا تاریکی کا عالم

کیوں رات نہ ہو ڈوب گیا نیّرِ اعظم

سب سامنے آنکھوں کے نہاں ہو گئے پیارے

وہ غم تھا کہ دن کو نظر آنے لگے تارے


۱۲ (12)

بیٹی نہ تجھے باپ نے افسوس، بچایا

دستِ ستمِ سیلِ فنا سے نہ چھڑایا

دریا نے تیرے حال پہ کچھ رحم نہ کھایا

کیا بھولی سی صورت پہ اُسے رحم نہ آیا

یہ جسم تیرا پھول سا دیواروں سے ٹکرائے

سیلاب میں بہہ جائے تیری ننھی سی جاں ہائے


۱۳ (13)

فرقت میں تیری کیا کہوں کیا گزرے ہے مجھ پر

ہر وقت ہوا جاتا ہے دل آپ سے باہر

ہے آمد و شد سانس کی چلتا ہو خنجر

بھرتا نظر آتا نہیں زخمِ دلِ مضطر

تو عزمِ سفر کردی و خستی جگرِ ما

بستی کمرِ خویش و شکستی کمرِ ما


۱۴ (14)

غم چٹکیاں لے لے کے نہ کیوں روح کو تڑپائے

آتی رہے کیوں دل سے نہ ہر وقت صدا ہائے

کیوں چشمِ جہاں بیں میں اندھیرا سا نہ چھا جائے

جب نورِ نظر ہی نہ ہو کیا خاک نظر آئے

روشن میرے کاشانۂ تاریک کو کر جا

اے نیّرِ اعظم! میری آنکھوں میں اُتر جا


۱۵ (15)

مانا کہ ہے دُنیائے دنی منزلِ فانی

دو روز میں مٹ جاتے ہیں لذّاتِ جہانی

پر ایسی بھی کیا جلدی تھی جو جانے کی ٹھانی

دل ہی میں رہی آرزوئے تسمیہ خوانی

باقی تھیں بہت سی ابھی اعظم تری رسمیں

تنگ آ گئی دنیا سے تو کیوں چار برس میں


۱۶ (16)

وہ بُوٹا سا قد اور وہ چمکتے ہوئے رخسار

وہ چاند سی پیشانی تری مطلع الانوار

وہ ابروِ خمدار تری ننھی سی تلوار

وہ آنکھیں جنہیں دیکھ کے دشمن بھی کریں پیار

تیغِ اجل اِک آن میں تڑپا گئی تجھ کو

اے نورِ نظر! کس کی نظر کھا گئی تجھ کو


۱۷ (17)

وہ چاند سی صورت مجھے اے چاند دکھا جا

کچھ میٹھی سی باتیں لبِ نازک سے سُنا جا

باقی نہیں اب صبر کی سینہ میں ذرا جا

چھاتی سے پھر اک بار لگالوں تجھے آجا

رستہ ترا تکتے ہوئے تنگ آ گئیں آنکھیں

اے نورِ نظر دیکھ کہ پتھرا گئیں آنکھیں


۱۸ (18)

دنیا کا طریقہ ہے کہ مرتا ہے جب اِنساں

رو دھو کے کیا کرتے ہیں تکفین کا ساماں

لے جاتے ہیں سب مِل کے سوئے شہرِ خموشاں

ہاتھوں سے تہِ خاک اُسے کرتے ہیں پنہاں

مِٹّی کا لگا دیتے ہیں انبارِ گراں ایک

کہتے ہیں مُوئے آدمی کا ہے یہ نشاں ایک


۱۹ (19)

کرتا ہے اگر تنگ بہت ہی دلِ مضطر

بیساختہ تربت سے لپٹ جاتے ہیں جا کر

دو پھول چڑھا دیتے ہیں بیکس کی لحد پر

بیتابی میں مرقد سے رگڑتے ہیں کبھی سر

فی الجملہ حرارت تو نکل جاتی ہے دل کی

گو کچھ نہ ہو ہوتی ہے مگر پھر بھی تسلّی


۲۰ (20)

کس جا سے میں اب ڈوبی ہوئی نعشوں کو لاؤں

بیٹی کا پتا کیا ہے ۔ کہاں بی بی کو پاؤں

دوں کس کو کفن کس کا میں تابوت بناؤں

ہے قبر کہاں پھول کہاں جا کے چڑھاؤں

ہے ہے ہدفِ رنج و محن کر گئیں اماں

افسوس کہ بے گور و کفن مر گئیں اماں


۲۱(21)

اے موسیٔ فرعون صفت! کچھ تو کرم کر

اے موج ذرا دیکھ مری حالتِ مضطر

ہاں اے لبِ ساحل نہ رکھ اب مجھ کو مُکدّر

کہہ دے کہ کہاں ہے مرا کھویا ہوا گوہر

ہاں اے صدفِ صاف خدا کے لئے منھ کھول

چپ کیوں ہے تو اے ماہیِ سر برزدہ کچھ بول


۲۲(22)

خاموش تو کس واسطے اے برقِ تپاں ہے

آخر ترے منھ میں بھی تو اے رعد زباں ہے

اے مہرِ جہاں تاب! مرا چاند کہاں ہے

کس چاہ میں وہ یوسفِ گم گشتہ نہاں ہے

اے قافلۂ ریگِ رواں تو ہی بتا دے

کس جا ہے مری مادرِ مرحومہ بتا دے


۲۳ (23)

جب انجمنِ عیش و طرب ہو گئی برباد

افسُردہ بھلا کیوں نہ رہے خاطرِ ناشاد

تنہائی میں آتی ہے عزیزوں کی اگر یاد

بیساختہ کرتا ہے دِلِ غمزدہ فریاد

اشک آنکھوں سے جاری ہیں کبھی لب پہ فغاں ہے

مرنے کے لئے مرتے ہیں پر موت کہاں ہے



۲۴ (24)

ہر وقت بچھی رہتی ہے دل میں صفِ ماتم

ہوتا نہیں رونا کبھی دم بھر کے لئے کم

سب چل بسے باقی نہ رہا ایک بھی ہمدم

بیٹی کا کہ بی بی کا کہ مادر کا کروں غم

آتا نہیں اب آہ سمجھ میں کوئی مضموں

حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کس کس کو میں روؤں


۲۵ (25)

جنگل سے سروکار نہ جی لگتا ہے گھر میں

غم شام و سحر چٹکیاں لیتا ہے جگر میں

پھرتی ہے عزیزوں کی ہی تصویر نظر میں

سو مرتبہ یاد آتی ہے ماں آٹھ پہر میں

سنگِ غمِ مادر دلِ نازک پہ گراں ہے

یہ زیست خدا کی قسم اب کاہشِ جاں ہے


۲۶ (26)

لللہ یہ بگڑی ہوئی تقدیر بنا لو

میں خاک پہ گرنے کو ہوں لو جلد سنبھالو

امجدؔ کو بھی اعظم کی طرح پاس بلا لو

اک بار ذرا پھر مجھے چھاتی سے لگا لو

دل میں مرے اب صبر کی طاقت نہیں اماں

دنیا میں بغیر آپ کے راحت نہیں اماں


https://urdushahkar.org/tughyaani-1908-qayaamat-e-soghra-amjad-hyderabadi/


Comments

Popular posts from this blog

Osmania University - ORIGIN AND HISTORY

History of Hyderabad in Chronological Order

Osmania General Hospital History